برپا ترے وصال کا طوفان ہو چکا
دل میں جو باغ تھا وہ بیابان ہو چکا
پیدا وجود میں ہر اک امکان ہو چکا
اور میں بھی سوچ سوچ کے حیران ہو چکا
پہلے خیال سب کا تھا اب اپنی فکر ہے
دامن کہاں رہا جو گریبان ہو چکا
تم ہی نے تو یہ درد دیا ہے جناب من
تم سے ہمارے درد کا درمان ہو چکا
جو جشن وشن ہے وہ حصار ہوس میں ہے
یہ آرزو کا شہر تو ویران ہو چکا
اوروں سے پوچھئے تو حقیقت پتہ چلے
تنہائی میں تو ذات کا عرفان ہو چکا
اک شہریار شہر ہوس کو بھی چاہئے
اور میں بھی عاشقی سے پریشان ہو چکا
کتنے مزے کی بات ہے آتی نہیں ہے عید
حالانکہ ختم عرصۂ رمضان ہو چکا
موسم خزاں کا راس کب آیا ہمیں شجاعؔ
جب آمد بہار کا اعلان ہو چکا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.