برسوں اشکوں سے وضو کا سلسلہ کرتے رہے
برسوں اشکوں سے وضو کا سلسلہ کرتے رہے
ہم نماز زندگی یوں بھی ادا کرتے رہے
ہم برابر دوستی کا حق ادا کرتے رہے
اور وہ روزانہ اک فتنہ کھڑا کرتے رہے
ہم بیاں رو رو کے دل کا مدعا کرتے رہے
اہل محفل مسکرا کر واہ وا کرتے رہے
کیا بتائیں زندگانی عشق کی کیسے کٹی
وہ جفا کرتے رہے اور ہم وفا کرتے رہے
عمر بھر اہل وطن نے بات تک مجھ سے نہ کی
لوگ میری قبر پر پھر جمگھٹا کرتے رہے
چاند کے مانند مکھڑے کی ضیا پاشی کے گرد
اپنی زلف عنبریں سے وہ گھٹا کرتے رہے
اک نظر تو نے نہ دیکھا بسملان زار کو
لوگ تیرا ذکر چشم سرمہ سا کرتے رہے
وہ جنہیں آئی میسر ابتدائے مال و زر
ہم پہ ہر لحظہ ستم کی انتہا کرتے رہے
اہل دانش دیکھیں ان کی سادگی بے چارگی
جو وسیلوں کے بھروسے پر خطا کرتے رہے
رہروو رک جاؤ سوچو اس پہیلی کا جواب
رہنماؤں کے نشانے کیوں خطا کرتے رہے
کیا سنائیں جاں بہ لب قوموں کی بیماری کا حال
درد بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کرتے رہے
ہو نہ پایا جاں بہ لب لاکھوں غریبوں کا علاج
اہل ثروت تندرستوں کی دوا کرتے رہے
ہو گئے کوشش میں اپنی کام والے کامیاب
اور ناکارہ مقدر کا گلا کرتے رہے
میں تو بحر غم کے طوفانوں سے ٹکراتا رہا
لوگ کچھ ساحل پہ بیٹھے تبصرہ کرتے رہے
من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو
شاعران پشہ ور یہ مشغلہ کرتے رہے
شر پسندوں کی رعایت میں فقیہان کرام
زشت کو خوب اور روا کو ناروا کرتے رہے
سرگزشت اپنی تو ساری یہ ہے اے رب رحیم
درگزر کرتا رہا تو ہم خطا کرتے رہے
رات چشم رازؔ پہروں اشک برساتی رہی
کھیل کے شوقین رونا کرکرا کرتے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.