برسوں جنوں صحرا صحرا بھٹکاتا ہے
گھر میں رہنا یوں ہی نہیں آ جاتا ہے
پیاس اور دھوپ کے عادی ہو جاتے ہیں ہم
جب تک دشت کا کھیل سمجھ میں آتا ہے
عادت تھی سو پکار لیا تم کو ورنہ
اتنے کرب میں کون کسے یاد آتا ہے
موت بھی اک حل ہے تو مسائل کا لیکن
دل یہ سہولت لیتے ہوئے گھبراتا ہے
اک تم ہی تو گواہ ہو میرے ہونے کے
آئینہ تو اب بھی مجھے جھٹلاتا ہے
اف یہ سزا یہ تو کوئی انصاف نہیں
کوئی مجھے مجرم ہی نہیں ٹھہراتا ہے
کیسے کیسے گناہ کئے ہیں خوابوں میں
کیا یہ بھی میرے ہی حساب میں آتا ہے
- کتاب : کھڑکی تو میں نے کھول ہی لی (Pg. 49)
- Author :شارق کیفی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 3rd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.