برسوں کے رت جگوں کی تھکن کھا گئی مجھے
برسوں کے رت جگوں کی تھکن کھا گئی مجھے
سورج نکل رہا تھا کہ نیند آ گئی مجھے
رکھی نہ زندگی نے مری مفلسی کی شرم
چادر بنا کے راہ میں پھیلا گئی مجھے
میں بک گیا تھا بعد میں بے صرفہ جان کر
دنیا مری دکان پہ لوٹا گئی مجھے
دریا پہ ایک طنز سمجھئے کہ تشنگی
ساحل کی سرد ریت میں دفنا گئی مجھے
اے زندگی تمام لہو رائیگاں ہوا
کس دشت بے سواد میں برسا گئی مجھے
کاغذ کا چاند رکھ دیا دنیا نے ہاتھ میں
پہلے سفر کی رات ہی راس آ گئی مجھے
کیا چیز تھی کسی کی ادائے سپردگی
بھیگے بدن کی آگ میں نہلا گئی مجھے
قیصرؔ قلم کی آگ کا احسان مند ہوں
جب انگلیاں جلیں تو غزل آ گئی مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.