بس اب کی یار خموشی کی انتہا بولے
بس اب کی یار خموشی کی انتہا بولے
بڑھے سکوت کچھ اتنا کہ خود خدا بولے
غلط ہے پوچھنا لوگوں سے داستان ستم
زباں پہ مہر لگی ہو تو کوئی کیا بولے
بندھیں گے بند کہاں آندھیوں کی لہروں پر
کواڑ کھول دو ایسا نہ ہو ہوا بولے
جو ایک گھر کے مسائل سنانے آئے تھے
وہ شہریار کے آگے جدا جدا بولے
صدائے پا ہے تری تو نہیں قریب مگر
فلک پہ ابر نہیں ہے مگر گھٹا بولے
کسی کو ربط نہیں ہے فن سماعت سے
یہ حال ہو تو کوئی کس قدر بھلا بولے
وہ مجھ سے بات کرے جب تو یوں لگے عاصمؔ
کہ آشنا سے کوئی غیر آشنا بولے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.