بس دیکھتے ہی دیکھتے صدیاں گزر گئیں
بس دیکھتے ہی دیکھتے صدیاں گزر گئیں
آبادیاں پہاڑوں سے نیچے اتر گئیں
سوچے ہوئے دنوں کے بدن دار آ بسے
پھر یوں ہوا کہ راتیں مرادوں سے بھر گئیں
باغیچۂ جہان مکانوں سے بھر گیا
پھر اور دیس تتلیاں پرواز کر گئیں
ہم زندگی سمیٹتے کس طرح شہر میں
وہ انتشار تھا کہ نگاہیں بکھر گئیں
آئینے جب یقین کے بے آب ہو گئے
آنکھوں سے انتظار کی پرتیں اتر گئیں
سب روشنی کی بھول بھلیوں میں کھو گئے
جتنی برائیاں تھیں اندھیروں کے سر گئیں
ہم رہ گئے فقیر سے تعبیر پوچھتے
فصلوں کے ساتھ ٹڈیاں سپنے بھی چر گئیں
اجسام پھر اتر نہ سکے آسمان سے
پرچھائیاں زمین پہ بے موت مر گئیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.