Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بس اک کشاکش کا سلسلہ ہے ازل سے جو آج تک رہا ہے

احسان دربھنگوی

بس اک کشاکش کا سلسلہ ہے ازل سے جو آج تک رہا ہے

احسان دربھنگوی

MORE BYاحسان دربھنگوی

    بس اک کشاکش کا سلسلہ ہے ازل سے جو آج تک رہا ہے

    فلک کی منکر زمیں رہی ہے زمیں کا منکر فلک رہا ہے

    ہے اپنے بازو پہ ناز جن کو وہ زور بازو کا آزما لیں

    وہ ساز کی سمت کیا بڑھے گا جو ہاتھ شمشیر تک رہا ہے

    کہیں نہ سیلاب کرب بن کر ابل پڑے نغمہ زندگی کا

    ہٹا لے اب اپنا ہاتھ مطرب کہ ساز کا دل دھڑک رہا ہے

    تمہاری بخیہ گری مسلم مگر کہاں تک رفو کرو گے

    مرے گریباں کا حال یہ ہے جگہ جگہ سے مسک رہا ہے

    لگے گی ٹھوکر جو راستے میں تو اب نہ شاید سنبھل سکیں گے

    خیال اک ان کا ہم سفر تھا سو وہ بھی دامن جھٹک رہا ہے

    روایتوں کی کمی نہیں ہے ہدایتوں کی کمی نہیں ہے

    قدم قدم پہ کھڑے ہیں رہبر مگر زمانہ بھٹک رہا ہے

    مزاج تیشوں کا مضمحل ہے اٹھاؤ ساز شکستہ احساںؔ

    سناؤ ماضی کے کچھ ترانے کہ حال کا دل دھڑک رہا ہے

    جنوں کا موسم جو آ رہا ہے تو عقل کا دل دھڑک رہا ہے

    ادھر بھی دامن پہ ہیں خراشیں ادھر بھی آنچل مسک رہا ہے

    ادھر دل مضطرب خفا ہے ادھر تبسم میں بھی حیا ہے

    ادھر خموشی اک التجا ہے ادھر تکلم بہک رہا ہے

    مری نظر کو سنا رہا ہے تمہاری بے تابیوں کا قصہ

    وہ ایک سایہ بہ رنگ شعلہ جو چلمنوں سے لپک رہا ہے

    ہوا سے چلمن سرک رہی ہے نگاہ میری ٹھٹھک رہی ہے

    کہ اب پرائی سمجھ کے اس کو تمہارا جلوہ جھجک رہا ہے

    تمہاری الجھن سمجھ رہا ہوں میں اپنے دل سے الجھ رہا ہوں

    کہ راستے بند ہو چکے ہیں تو پھر یہ کیوں راہ تک رہا ہے

    تم اس طرف سے گزر چکی ہو مگر گلی گنگنا رہی ہے

    تمہاری پازیب کا وہ نغمہ فضا میں اب تک کھنک رہا ہے

    مئے محبت پلانے والی پیالہ اس کا چھلک نہ جائے

    ابھی تو اتری نہیں گلے سے ابھی سے احساںؔ بہک رہا ہے

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے