بس اک شعاع نور سے سایہ سمٹ گیا
بس اک شعاع نور سے سایہ سمٹ گیا
وہ پاس آ رہا تھا کہ میں دور ہٹ گیا
پھر درمیان عقل و جنوں جنگ چھڑ گئی
پھر مجمع خواص گروہوں میں بٹ گیا
کیا اب بھی تیری خاطر نازک پہ بار ہوں
پتھر نہیں کہ میں ترے رستے سے ہٹ گیا
یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دل کہ رگ گل سے کٹ گیا
وہ لمحۂ شعور جسے جاں کنی کہیں
چہرے سے زندگی کی نقابیں الٹ گیا
اب کون جائے کوئے ملامت سے لوٹ کر
قدموں سے آ کے اپنا ہی سایہ لپٹ گیا
آخر شکیبؔ خوئے ستم اس نے چھوڑ دی
ذوق سفر کو دیکھ کے صحرا سمٹ گیا
- کتاب : Kulliyat Shakeb Jamali (Pg. 381)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.