بس خیال آتا ہے اپنے عشق کی تشہیر کا
بس خیال آتا ہے اپنے عشق کی تشہیر کا
ورنہ دنیا دیکھتی جلوہ دل دلگیر کا
بیکسی کرب و تنفر ڈھونگ ہے تفکیر کا
میرا ہونا خود مخالف ہے تری تنکیر کا
حرکتوں پر ہی اگر ہے برکتوں کا انحصار
کیوں تماشا دیکھتے بیٹھے رہیں تقدیر کا
سانپ بن کر لوٹتی ہیں خواہشیں دل پر مرے
مرثیہ لکھتا نہیں میں سستیٔ تدبیر کا
دعوت صد عیش ادھر اور فتنۂ گیسو ادھر
اس کی انگڑائی ہے نقشہ وادئ کشمیر کا
سیل غم میں ہی سہی نکلیں تو دل سے حسرتیں
شکریہ یادوں کا اس فن کا تری تصویر کا
تم اسے دیوانگی سمجھو کہ اب سادہ دلی
منتظر ہے دل تمہاری ہی نظر کے تیر کا
دل کے جس ٹکڑے کو دل سے چاہتا تھا سرفرازؔ
ایک دستاویز ہے اب غیر کی جاگیر کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.