بس کہ مجھ سے وہ صنم ان دنوں خفا سا ہے
بس کہ مجھ سے وہ صنم ان دنوں خفا سا ہے
آنکھ میری نم سی ہے دل مرا بجھا سا ہے
خواہشوں کی بھیڑ میں تو نہ کھو سکا کبھی
انتظار میں ترے زخم دل ہرا سا ہے
آنسوؤں کی وہ ندی خشک ہو چلی مگر
تیرے درد کا شجر آج بھی ہرا سا ہے
آندھیوں کا غم نہیں دھوپ کا ستم نہیں
چاہتوں کے پھول کا رنگ کیوں اڑا سا ہے
کیا یزید وقت کی زد پہ ہے اصول حق
شہر جاں میں ہر طرف شور کربلا سا ہے
وہ مری حقیقتیں کر ہی دیتا ہے عیاں
یعنی تیرا حسن بھی کوئی آئنہ سا ہے
جس طرح بھی چاہیے آپ لطف اٹھائیے
درد کا فسانہ بھی قصۂ وفا سا ہے
اس کے پائے ناز پر کیوں نہ خم کروں جبیں
میری چشم شوق میں وہ صنم خدا سا ہے
اس کے سائے سائے ہی کٹ رہی ہے زندگی
حرف حرف وہ ترا دھوپ میں گھٹا سا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.