بس روح سچ ہے باقی کہانی فریب ہے
جو کچھ بھی ہے زمینی زمانی فریب ہے
رنگ اپنے اپنے وقت پہ کھلتے ہیں آنکھ پر
اول فریب ہے کوئی ثانی فریب ہے
سوداگران شعلگیٔ شر کے دوش پر
مشکیز گاں سے جھانکتا پانی فریب ہے
اس گھومتی زمیں پہ دوبارہ ملیں گے ہم
ہجرت فرار نقل مکانی فریب ہے
دریا کی اصل تیرتی لاشوں سے پوچھیے
ٹھہراؤ ایک چال روانی فریب ہے
اب شام ہو گئی ہے تو سورج کو روئیے
ہم نے کہا نہ تھا کہ جوانی فریب ہے
بار دگر سمے سے کسی کا گزر نہیں
آئندگاں کے حق میں نشانی فریب ہے
علم اک حجاب اور حواس آئنے کا زنگ
نسیان حق ہے یاد دہانی فریب ہے
تجسیم کر کہ خواب کی دنیا ہے جاوداں
تسلیم کر کہ عالم فانی فریب ہے
شاہدؔ دروغ گوئی گلزار پر نہ جا
تتلی سے پوچھ رنگ فشانی فریب ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.