بسائے جاتے ہیں اہل جنوں سے ویرانے
بسائے جاتے ہیں اہل جنوں سے ویرانے
رموز مملکت حسن کوئی کیا جانے
یہ کس کی بزم ہے آراستہ خدا جانے
نہیں ہے شمع تو کیوں جل رہے ہیں پروانے
ہے بندہ ہونے کے اظہار پر بشر مجبور
پئے سجود بنیں مسجدیں کہ بت خانے
نہ قیس دشت میں ہے اور نہ کوہ میں فرہاد
پر ان کے نام سے گونج اٹھتے ہیں یہ ویرانے
فزوں ہیں نغمۂ بلبل سے قہقہے گل کے
کہ انتظام چمن اب کریں گے دیوانے
دیار عشق میں برپا ہے انقلاب عظیم
یہ دور وہ ہے کہ اپنے ہوئے ہیں بیگانے
چھپا لیا رخ انور حنائی ہاتھوں سے
ہمارے دل پہ جو گزری تری بلا جانے
ستم ہزار ہوں ظالم مگر دلوں کو نہ توڑ
ترے خیال سے آباد ہیں یہ کاشانے
وہ حال غم مرا خود مجھ سے سن کے کہتے ہیں
کہ سن چکے ہیں ہم ایسے ہزار افسانے
ہے بادہ نوشی سے مستوں کو بعد مرگ بھی ربط
کہ ان کی خاک سے یاں بن رہے ہیں پیمانے
صنم سے حال دل زار کہہ تو دوں آغاؔ
مگر میں جاؤں کہاں وہ اگر برا مانے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.