بشر کے فیض صحبت سے لیاقت آ ہی جاتی ہے
بشر کے فیض صحبت سے لیاقت آ ہی جاتی ہے
پری زادوں کو آخر آدمیت آ ہی جاتی ہے
جوانی سے دیا وہ ہوتے ہیں غافل ضعیفی میں
نسیم صبح چلتی ہے تو غفلت آ ہی جاتی ہے
کلید قفل مشکل ہوتی ہے داد و دہش آخر
سخی کے ایک دن آڑے سخاوت آ ہی جاتی ہے
رقیب اس شوخ سے جب گرمیاں کرتے ہیں محفل میں
نہیں قابو میں دل رہتا حرارت آ ہی جاتی ہے
ہمیں بھی یاد کر لیتے ہیں وہ بھولے سے صحبت میں
کبھی ہم بے نصیبوں کی بھی نوبت آ ہی جاتی ہے
طبیعت کو نہ کیوں کر غیر کے مضمون سے نفرت ہو
کہ جھوٹی چیز سے اکثر کراہت آ ہی جاتی ہے
بجا کہتے ہیں جو کہتے ہیں یہ خدمت سے عظمت ہے
کہ کام انساں کے اک دن ریاضت آ ہی جاتی ہے
عجب سر گرم کوشش ہو مقدر میں جو ہوتی ہے
تو ہاتھ انساں کے اک روز دولت آ ہی جاتی ہے
تأسف کرتے ہیں وہ دیکھ کر میرا دل ویراں
خرابے پر گزرتے ہیں تو غیرت آ ہی جاتی ہے
دبایا جب رقیبوں کو تو بولے یار کیا کہنا
جو ارباب حیا ہیں ان کو غیرت آ ہی جاتی ہے
حسینوں کو ہی زیبا حسن صورت پر غرور اپنے
ہر اک ارباب دولت کو رعونت آ ہی جاتی ہے
عجب شے ہے خوشی بھی سن کے وصل یار کا مژدہ
مریض ہجر کے چہرے پہ وحشت آ ہی جاتی ہے
چھپانے سے نہیں چھپتا ہے حسن دل کش عالم
کہیں ہو دیکھنے میں اچھی صورت آ ہی جاتی ہے
سکھا دیتا ہے اقبال آدمی کو نیک و بد آخر
یہ دولت ہے وہ شے شان ریاست آ ہی جاتی ہے
توجہ منعموں کی نفع سے خالی نہیں ہوتی
ہوائے گوشۂ دامان دولت آ ہی جاتی ہے
ستم دیدہ جو ہیں وہ ذکر آفت سے بھی ڈرتے ہیں
قلقؔ نام شب فرقت سے دہشت آ ہی جاتی ہے
- Mazhar-e-Ishq
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.