بستی ملی مکان ملے بام و در ملے
بستی ملی مکان ملے بام و در ملے
میں ڈھونڈھتا رہا کہ کہیں کوئی گھر ملے
بے سمت کائنات میں کیا سمت کی تلاش
بس چل پڑے ہیں راہ جہاں اور جدھر ملے
آوارگی میں تم بھی کہاں تک چلو گے ساتھ
پہلے بھی راستے میں کئی ہم سفر ملے
لگتا ہے اب کے جان ہی لے لے گی فصل گل
اشکوں میں آج بھی کئی لخت جگر ملے
شاید گزر رہا ہوں کسی کربلا سے میں
خیمے جلے ہوئے ملے نیزوں پہ سر ملے
میں چاہتا ہوں کاٹ دے کوئی مری یہ بات
جتنے بڑے درخت ملے بے ثمر ملے
کیا ہاتھ پانو مار رہے ہو زمین پر
ڈوبو سمندروں میں تو شاید گہر ملے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.