بتا محقق کہ تھا بھی کوئی وجود کون و مکاں سے پہلے
بتا محقق کہ تھا بھی کوئی وجود کون و مکاں سے پہلے
کسی کا ہونا ہوا بھی ثابت ثبات ہر دو جہاں سے پہلے
چمن کے ہم بھی تھے رہنے والے خدا کسی کا نہ گھر اجاڑے
ہمارے گھر بھی تھا رشک جنت مگر تھا دور خزاں سے پہلے
قفس میں میرا جو سانس اکھڑا فغاں کا اس کو گمان گزرا
زبان کاٹی ہے اس نے میری ستم تو دیکھو فغاں سے پہلے
ہماری رفعت کا پوچھنا کیا کبھی تھے خلد بریں کے ساکن
ہمارا رتبہ ملائکہ سے سوا تھا نقل مکاں سے پہلے
جہان ڈوبا تو کیا کروں میں رلایا ہوتا نہ تم نے مجھ کو
خبر میں طوفاں کی دے چکا تھا تمہیں بھی اشک رواں سے پہلے
جڑے تھے قسمت سے چار تنکے فلک کی آنکھوں میں وہ بھی کھٹکے
مجھے ہے کھٹکا کہ پھر نشیمن کہیں نہ اجڑے خزاں سے پہلے
تمہارے وعدے کا کیا بھروسہ یقیں ہے ہم کو نہ ہوگا ایفا
پھرو گے اب بھی زباں سے اپنی پھرے تھے جیسے زباں سے پہلے
نہ ہار دیکھی نہ جیت اپنی سمایا سودا کچھ ایسا سر میں
بتوں سے دل کی لگائی بازی حساب سود و زیاں سے پہلے
حیات اپنی رفیق نکلی لگایا اس نے رساؔ ٹھکانے
وہیں پہ لے جا کے مجھ کو چھوڑا چلی تھی لے کر جہاں سے پہلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.