بیابان جنوں میں شام غربت جب ستایا کی
بیابان جنوں میں شام غربت جب ستایا کی
مجھے رہ رہ کے اے صبح وطن تو یاد آیا کی
نگاہ مست ادھر میری طرف شرما کے دیکھا کی
ادھر میری تمنا مضطرب ہو ہو کے تڑپا کی
اب اہل ہوش کو فرہاد و مجنوں یاد آتے ہیں
جو سچ پوچھو تو دیوانوں سے آبادی تھی صحرا کی
پہنچ تو لے تمہاری بزم میں لیلیٰ کا دیوانہ
نظر نیچی نہ ہوگی اس تمہارے نام لیوا کی
محبت اور کہتے ہیں کسے دو دل کے ملنے کو
چلو بس ہو گئی فرصت نہ ہم شاکی نہ تم شاکی
صف آخر میں ہوں لیکن مجھے یہ فخر کیا کم ہے
تری آنکھوں نے اتنی بھیڑ میں میری نظر تاکی
جو کچھ جلوے کے پیچھے تھا وہ اب آنکھوں کے آگے ہے
کہاں پہونچی نگاہیں آپ کے محو تماشا کی
چمن سے توڑ لی تھی ایک مرجھائی کلی میں نے
بس اتنی بات پر دنیا کی دنیا ہو گئی شاکی
ہو موقع بھی تو شان عشق کو یہ کب گوارہ ہے
کہ تیری بے رخی سے داد لے اپنی تمنا کی
برہمن کی نظر مل جائے تو دیکھیں حرم والے
بتوں کے حسن میں پرچھائیاں اس روئے زیبا کی
بھرا آتا ہے دل اس شمع افسردہ کی قسمت پر
سحر سے شام تک جو راہ پر والوں کی دیکھا کی
سبھی تیرے فدائی ہیں مگر اے نوجواں قاتل
یہ بسملؔ ہی پہ کیوں آخر تری تلوار چمکا کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.