بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
رکھیو یا رب یہ در گنجینۂ گوہر کھلا
شب ہوئی پھر انجم رخشندہ کا منظر کھلا
اس تکلف سے کہ گویا بت کدے کا در کھلا
گرچہ ہوں دیوانہ پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
آستیں میں دشنہ پنہاں ہاتھ میں نشتر کھلا
گو نہ سمجھوں اس کی باتیں گو نہ پاؤں اس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
ہے خیال حسن میں حسن عمل کا سا خیال
خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا
منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھلا
در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
کیوں اندھیری ہے شب غم ہے بلاؤں کا نزول
آج ادھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا
کیا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث کا یہ حال
نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا
اس کی امت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہہ کے غالبؔ گنبد بے در کھلا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.