بے برگ و ثمر ہو تو شجر کیسے کہوں گا
بے برگ و ثمر ہو تو شجر کیسے کہوں گا
پھر دشت کو دریا کا سفر کیسے کہوں گا
مر جاتی ہے دب کر کوئی خواہش مرے دل میں
گرتی ہوئی دیوار کو گھر کیسے کہوں گا
صد پردہ خلوت میں چمکتی ہے مری روح
دل میں ہے مرے شمس و قمر کیسے کہوں گا
بے مایہ و بے کس ہی سہی تیری حیا ہوں
ہو جائے تری مجھ پہ نظر کیسے کہوں گا
میں ترے لئے ہجر کی اک بہتی ہوا ہوں
تو آ مجھے آغوش میں بھر کیسے کہوں گا
احساس کے بادل میں چھپا ہے کوئی سورج
یہ دن کا اجالا ہے مگر کیسے کہوں گا
مخدوش ہے یہ گھر بھی جو ہے تیری امانت
تو آ کے مری جاں میں اتر کیسے کہوں گا
اک مصرعۂ آوارہ تو اٹھتا نہیں مجھ سے
آتا ہے غزل کا بھی ہنر کیسے کہوں گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.