بے حسی کی دھول میں بے حس اٹے رہ جائیں گے
بے حسی کی دھول میں بے حس اٹے رہ جائیں گے
لوگ اپنے اپنے فرقوں میں بٹے رہ جائیں گے
ڈھانپ لے گی جبر کی دھرتی پرندوں کے بدن
اور بال و پر فضاؤں میں کٹے رہ جائیں گے
لوگ اتر آئیں گے غربت سے محاذ آرائی پر
شہر میں ہر سمت ظالم مرہٹے رہ جائیں گے
جنگلوں کی سمت بہہ جائے گا جسموں کا ہجوم
شہر کی ویرانیوں میں سر کٹے رہ جائیں گے
خواہشیں اڑ جائیں گی تازہ ہوا کے ساتھ ساتھ
بستروں پر سلوٹوں کے جمگھٹے رہ جائیں گے
آندھیاں ملبہ بنا کے چھوڑ جائیں گی انہیں
حوصلے اپنے مکانوں کے ڈٹے رہ جائیں گے
گفتگو ذہنوں میں کچھ تحلیل سی ہو جائے گی
خود بخود مفہوم ہونٹوں پر رٹے رہ جائیں گے
منزلیں اخترؔ پلٹ کر دیکھتی رہ جائیں گی
ہم طلب کی راہ میں پیچھے ہٹے رہ جائیں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.