بے کیف ساعتوں سے شناسائی دے گیا
محفل میں بھی وہ گوشۂ تنہائی دے گیا
میں ہجر کی رتوں میں بھی کھل کر نہ رو سکی
کچھ اس طرح وہ درس شکیبائی دے گیا
آزاد کیا کیا اسے خود ہو گئے اسیر
زنجیر اپنی کل ہمیں سودائی دے گیا
نا بینا ساعتوں کو پرکھنا تھا اس لیے
گونگی سماعتوں کو بھی شہنائی دے گیا
ہر لفظ مجھ سے اذن سفر مانگتے ہوئے
چپ ہو کے مجھ کو طاقت گویائی دے گیا
ہم قربتوں کو جرم سمجھتے رہے مگر
یہ فاصلہ تو اور بھی رسوائی دے گیا
وہ خوشبوؤں کی رت کا گزرتا ہوا سفیر
بچپن تو لے گیا مگر انگنائی دے گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.