بے کراں سمجھا تھا خود کو کیسے نادانوں میں تھا
بے کراں سمجھا تھا خود کو کیسے نادانوں میں تھا
آسماں بکھرا تو ہر سو شبنمی دانوں میں تھا
میں نے جس زینے پہ رکھا پا تو مجھ کو ڈس گیا
جب بھی دانہ میں نے پھینکا سانپ کے خانوں میں تھا
پھر کوئی موج بلا کیسے مرا سر لے گئی
اے خدا میرے خدا تو بھی نگہبانوں میں تھا
اک لہو کی بوند تھی لیکن کئی آنکھوں میں تھی
ایک حرف معتبر تھا اور کئی معنوں میں تھا
سوچتے ہیں کس طرح اس شہر میں جیتے رہے
آستیں میں سانپ تھے اور زہر پیمانوں میں تھا
جانے کیسی تھی مجیبیؔ آگ اس کے لمس کی
جسم کا سونا پگھل کر سب مری رانوں میں تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.