بے قراری ہے بہت خود سے بے قرار بھی ہے
بے قراری ہے بہت خود سے بے قرار بھی ہے
اس کے ہونٹوں تلے اقرار بھی انکار بھی ہے
دوں صدائیں جو پکارا کروں سب نامنظور
خوب اندر ہے انا اس لئے لاچار بھی ہے
دل میں کیا حادثہ بے چین کیے رہتا ہے
جانے کس بات پہ رنجور خطا وار بھی ہے
جس کی خاطر میں رہی دور زمانے بھر سے
میرا دشمن ہے وہی جاناں میرا پیار بھی ہے
ایک دن لوٹ کے آئے گا یقیں ہے مجھ کو
سخت ہے آدمی یوں بھی ذرا تہہ دار بھی ہے
پھول کے جیسا ہے رونقؔ اسے میں جانتی ہوں
عین لہجہ میں کڑک ہے کہیں تلوار بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.