بے قراری ہے کہ آثار یہ جھنجھٹ کے ہیں
بے قراری ہے کہ آثار یہ جھنجھٹ کے ہیں
وسوسے ان دنوں دل میں نئی آہٹ کے ہیں
وہ نہ آئے تو اترتے نہیں پانی میں بطخ
اس کے نقال بھی دل باختہ پنگھٹ کے ہیں
چھیڑتے ہیں مجھے محروم تمنا کہہ کر
ایک دو ان میں یقیناً اسی نٹکھٹ کے ہیں
ہے یہ دنیا بڑی حرافہ مگر دل والے
خوگر غم ہیں ازل سے تری چوکھٹ کے ہیں
ہم مقلد ہیں ترے ہے ہمیں مرغوب جمال
اور وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم بھٹکے ہیں
کوئی پرخاش پہ اکساتا نہیں حضرت کو
یعنی بدنام زیادہ ہی مرے جھٹکے ہیں
اتنا پھولیں نہ کئی گھاٹ کا پانی پی کر
ٹوٹ جائیں گے کہ مٹی ہی کے سب مٹکے ہیں
ہضم ہوں گے نہ یہ اشعار تو سفلی ناقد
قے کریں گے کہ وہ کارندے ملاوٹ کے ہیں
اپنے ہم عصروں میں ممتاز نہیں ہیں لیکن
سرفراز اعظمیؔ لوگوں سے ذرا ہٹ کے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.