بے ربط موسموں میں سموئے گئے تھے لوگ
بے ربط موسموں میں سموئے گئے تھے لوگ
کیا کہیے کس لڑی میں پروئے گئے تھے لوگ
بے نام راستوں کے سفر کا سوال تھا
نفرت کی ندیوں میں ڈبوئے گئے تھے لوگ
بینائیاں سمٹ کے پلٹتی تھیں اپنی سمت
اپنی انا کے دشت میں کھوئے گئے تھے لوگ
یوں تو سفر میں چاند ستارے تھے ہم رکاب
پھر بھی عذاب شب میں پروئے گئے تھے لوگ
ٹھہرا ہوا وہ لمحہ ابھی تک خلا میں ہے
جب تیرگی کے غار میں ڈھوئے گئے تھے لوگ
ناکام ہو کے دھوپ زمیں سے پلٹ گئی
انصرؔ نہ جانے کیسے بھگوئے گئے تھے لوگ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.