بے ثباتی کے ہیں یا اثبات کے چاروں طرف
بے ثباتی کے ہیں یا اثبات کے چاروں طرف
شہر میں چرچے ہیں یہ کس بات کے چاروں طرف
ایک میری ذات سے روشن ہے وحشت کا مکاں
دن کے ہنگامے ہیں رقصاں رات کے چاروں طرف
ایک نخلستان بھی ہوتا ہے صحراؤں کے بیچ
کیا ہوا جو غم ہیں میری ذات کے چاروں طرف
مقتل احساس پہ رکھی ہیں دو آنکھیں مری
کتنے لاشے ہیں جواں جذبات کے چاروں طرف
مکڑیوں نے بن دئے جالے نہ جانے کس لئے
کون دشمن ہے یہاں کھنڈرات کے چاروں طرف
اب بھی زندہ ہیں یزیدی اب بھی تشنہ ہیں امام
اب بھی دشمن ہیں بہت سادات کے چاروں طرف
تم کو کیا معلوم تم پھولوں کے شیدائی ضیاؔ
کوئی صحرا بھی ہے ان باغات کے چاروں طرف
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.