بے سبب خوف سے دل میرا لرزتا کیوں ہے
بے سبب خوف سے دل میرا لرزتا کیوں ہے
بات بے بات یوں ہی خود سے الجھتا کیوں ہے
شور ایسے نہ کرے بزم میں خاموش رہے
اک تواتر سے خدا جانے دھڑکتا کیوں ہے
موم کا ہو کے بھی پتھر کا بنا رہتا تھا
اب یہ جذبات کی حدت سے پگھلتا کیوں ہے
ہجر کے جتنے بھی موسم تھے وہ کاٹے ہنس کر
پھر سر شام ہی یادوں میں سسکتا کیوں ہے
اس کے ہونے سے میں انکار کروں تو کیسے
عکس اس کا مری آنکھوں میں جھلکتا کیوں ہے
جب بھی خاموشی سے تنہائی میں بیٹھی جا کر
کرب سا اس کی رفاقت کا چھلکتا کیوں ہے
پھوٹ جائے یہ کسی طور کوئی ٹھیس لگے
بن کے پھوڑا سا وہ اب دل میں ٹپکتا کیوں ہے
جو مقدر میں لکھا تھا وہ ہوا ہے اسریٰؔ
خواب کی باتوں سے اس طرح مچلتا کیوں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.