بے سمت مسافت سے مفر ہے کہ نہیں ہے
بے سمت مسافت سے مفر ہے کہ نہیں ہے
منزل بھی کوئی پیش نظر ہے کہ نہیں ہے
گھر چھوڑ دیا پھر بھی یہی سوچ رہا ہوں
رستے میں کہیں کوئی شجر ہے کہ نہیں ہے
ویسے تو مرا اس سے ہے دیرینہ تعلق
یہ بات اسے یاد مگر ہے کہ نہیں ہے
میں اپنے سفینے کو ادھر ڈال رہا ہوں
دریا ترے سینے میں بھنور ہے کہ نہیں ہے
اس شہر نے دیکھی تو نہ تھی ایسی سیاہی
اس شہر کی قسمت میں سحر ہے کہ نہیں ہے
جس بات کا چرچا ہے یہاں سب کی زباں پر
اس بات کی کچھ اس کو خبر ہے کہ نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.