بے زبانی زبان ہو کے رہی
دلچسپ معلومات
(7جولائی 1957ء )
بے زبانی زبان ہو کے رہی
ہر نظر داستان ہو کے رہی
جس پہ رکھا کبھی قدم ہم نے
وہ زمیں آسمان ہو کے رہی
جسے خون جگر سے سینچا تھا
وہ تمنا جوان ہو کے رہی
رنگ لایا کسی کا جذب خلوص
وہ نگہ مہربان ہو کے رہی
موت پہ کچھ نہ بس چلا اس کا
زندگی بے نشان ہو کے رہی
عذر دل نے ہزار پیش کیے
وہ نظر بد گمان ہو کے رہی
ہم سمجھتے رہے اسے اک کھیل
زندگی امتحان ہو کے رہی
ان سے ملنے کی آرزو طالبؔ
میرے قالب میں جان ہو کے رہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.