بیچ کر تہذیب دولت کے پجاری ہو گئے
بیچ کر تہذیب دولت کے پجاری ہو گئے
اس زمانے کے سخنور بھی مداری ہو گئے
رکھ کے وہ میزان پر دیوان اپنا رو پڑے
جب کسی کے بے سرے الفاظ بھاری ہو گئے
ہم نے اک مندر میں دیکھی آج ایسی مورتی
آدمی تو آدمی پتھر پجاری ہو گئے
انقلاب آیا تو ہے لیکن یہ کیسا انقلاب
چینٹیوں کو مارنے والے شکاری ہو گئے
عشق کے بازار سے لوٹے ہیں دل کو ہار کر
دین و ایماں تم سنبھالو ہم جواری ہو گئے
کون سمجھائے سمندر کے تھپیڑوں کو فہیمؔ
کیسے کیسے وقت کے آگے بھکاری ہو گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.