بیڑی یہ مرے پاؤں میں پہنا تو رہے ہو
بیڑی یہ مرے پاؤں میں پہنا تو رہے ہو
پھر عہد خودی توڑ کے تم جا تو رہے ہو
پلکوں کی منڈیروں پہ پرندوں کو اڑاؤ
تسلیم کیا تم مجھے سمجھا تو رہے ہو
پچھتاوا نہ ہو کل یہ قدم سوچ کے لینا
جذبات میں الفت کی قسم کھا تو رہے ہو
سمجھایا تھا کل کتنا مگر باز نہ آئے
کیا ہوگا ابھی مانا کہ پچھتا تو رہے ہو
رہنے بھی ابھی دیجیے اشکوں کا تکلف
جب جانتے ہو دل پہ ستم ڈھا تو رہے ہو
اب ایک نئے طرز رفاقت پہ عمل ہو
تم بیچ میں لوگوں کے بھی تنہا تو رہے ہو
کل ٹھوکروں میں جگ کی کہیں چھوڑ نہ دینا
اک درد زدہ شخص کو اپنا تو رہے ہو
انسان کبھی رزق سے بھی سیر ہوا ہے
تقدیر میں تھا جتنا لکھا پا تو رہے ہو
اس میں بھی کوئی رمز کوئی فلسفہ ہوگا
حسرتؔ جی ابھی جھوم کے تم گا تو رہے ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.