بھاگا تو بہت تھا موت سے میں کم بخت نے لیکن آن لیا
بھاگا تو بہت تھا موت سے میں کم بخت نے لیکن آن لیا
ان لاکھوں ہی مرنے والوں میں کیا جلد مجھے پہچان لیا
جب قتل ہوا میں تڑپا بھی چھینٹیں بھی اڑائیں مان لیا
الزام خود اس پر کیا یہ نہیں دامن کو نہ کیوں گردان لیا
تو عام فریبی مجھ سے نہ کر ہم مرد ہیں سن لے اے دنیا
جو منہ سے کہا وہ کر گزرے جو ٹھان لیا وہ ٹھان لیا
اقسام تھے یاس و حسرت کے اصناف امید بے حد کے
جب چلنے لگے ہم دنیا سے ساتھ اپنے بہت سامان لیا
جس ہاتھ سے مجھ کو قتل کیا اس ہاتھ کا کلمہ پڑھوایا
لی جان تو خیر احسان کیا قاتل نے مگر ایمان لیا
مے خانہ ہے جائے عیش و طرب یاں بیٹھ کے رونا کیا معنی
کیا مفت کا اپنے سر تو نے اے دیدۂ تر طوفان لیا
اس گھر میں کرم جب تو نے کیا کچھ دیر ٹھہر اے تیر نظر
بوسہ ترے قدموں کا دل نے کس شوق سے اے مہمان لیا
آرام طلب ہونے کا گماں جویا پہ ترے لاحول ولا
تب پاؤں کو توڑے بیٹھا ہوں جب دشت و جبل کو چھان لیا
جس بھیس میں تو ہو کیا پروا آئندہ نہ کھائے گی دھوکا
اے طالب دنیا دنیا نے ہر طرح تجھے پہچان لیا
تھی دھار رگ گردن پہ مری سینہ بھی دبا تھا قدموں سے
خنجر کا ترے بوسہ ہم نے منہ پھیر کے تا امکان لیا
اے شادؔ عبث ہے اس کا گلا وہ ہجو کرے یا تجھ سے پھرے
تا حشر رہا شاگرد ترا استاد تجھے جب مان لیا
- کتاب : Dewan-e-shad Azimabadi (Pg. 69)
- Author : Shad Azimabadi
- مطبع : Educational Publishing House (2005)
- اشاعت : 2005
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.