بھڑک رہی ہے بہت دل میں آتش بے باک
بھڑک رہی ہے بہت دل میں آتش بے باک
بجھا سکے گا اسے کیسے دیدۂ نمناک
بہت ہی سادہ دل و سادہ طور ہیں ہم لوگ
فریب کار زمانہ ہے شاطر و چالاک
عوام بر سر پیکار تخت شاہی سے
نظام زر ہوا جاتا ہے اب خس و خاشاک
وہ دن بھی کیا تھے کہ علم و ہنر تشخص تھا
زمیں پہ اپنا تصرف تو زیر پا افلاک
نظام زر کو ابھی پھینک دو سمندر میں
ہے اس کی فکر میں بدبو وجود بھی ناپاک
خدا نے اپنی ہی فطرت پہ جس کو خلق کیا
میں سوچتا ہوں وہ انساں ہوا ہے کیوں سفاک
مرے سخن سے تغافل نہ کر کہ دنیا میں
ہے اہل دل کے لیے یہ صحیفۂ ادراک
یہی تو لوگ ہیں سرخیل عشق و مستی کے
چراغ آرزو دل میں تو ہے گریباں چاک
زمیں کا بوجھ ہیں انسانیت پہ دھبہ ہیں
ہے جن کا مقصد ہستی فقط زر و املاک
میں خود زمیں سے مجھے آسماں سے کیا مطلب
میں خاکسار مری زندگی کا فخر بھی خاک
زمین زادوں سے مایوس ہو گیا راہیؔ
کہ اس کی آہ و فغاں اب ہے جانب افلاک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.