بھروسہ ہر کسی کا کھو چکے ہیں
سر بازار رسوا ہو چکے ہو چکے ہیں
غلامی کر رہے ہیں خواہشوں کی
دلوں کی حکمرانی کھو چکے ہیں
توقع ہے محبت کے ثمر کی
اگرچہ فصل نفرت بو چکے ہیں
نہ رکھ ان سے مدد کی آس کوئی
ضمیر ان سب کے مردہ ہو چکے ہیں
بھلا باہر سے کیسے صاف ہوں گے
یہ جب اندر سے میلے ہو چکے ہیں
صداقت بھائی چارہ پیار اخوت
یہ سب ماضی کے قصے ہو چکے ہیں
جہاں پر کفر حاوی ہو رہا ہے
یہ لگتا ہے مسلماں سو چکے ہیں
نجات اب تو ملے رنج و الم سے
دکھوں کا بوجھ کافی ڈھو چکے ہیں
جو موت آئے تو راحت ہو میسر
پریشاں زندگی سے ہو چکے ہیں
مگر وہ سنگ دل اب تک نہ پگھلا
کئی بار اس کے آگے رو چکے ہیں
نتیجے میں ہم اپنی غفلتوں کے
وقار اے شادؔ اپنا کھو چکے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.