بھٹک رہی ہے روح کے اندر لذت سوکھی گیلی سی
بھٹک رہی ہے روح کے اندر لذت سوکھی گیلی سی
جیسے رستہ بھول گئی ہو ایک ندی پتھریلی سی
میرے اس کے بیچ کا رشتہ اک مجبور ضرورت ہے
میں سوکھے جذبوں کا ایندھن وہ ماچس کی تیلی سی
دیکھوں کیسی فصل اگاتا ہے موسم تنہائی کا
درد کے بیج کی نسل ہے اونچی دل کی مٹی گیلی سی
دروازے پر منہ لٹکائے قلت رنگ و روغن کی
آنگن آنگن جشن منائے خواہش نیلی پیلی سی
مجھ کو بانٹ کے رکھ دیتی ہے دھوپ چھانو کے خیموں میں
کچھ بے غیرت سی مصروفی کچھ فرصت شرمیلی سی
دن بھر کی جاں سوز تھکن کا اجر چکانے کو خورشیدؔ
شام کے پربت پر بیٹھی ہے اک ساعت نوکیلی سی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.