بھلا چکا ہے زمانہ مرے فسانے کو
میں رو رہی ہوں مگر اب بھی اس زمانے کو
وہ مجھ سے وعدۂ فردا مری قسم لے کر
ہے یاد آ گیا پھر سے مجھے رلانے کو
یقین جان کہ آنکھوں سے خون بہنے لگے
میں بیٹھ جاؤں اگر حال دل سنانے کو
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا لیا ہے گلے
اب ایک پل نہیں ملتا ہے مسکرانے کو
وہ گیت جس کو محبت سلام کرتی ہے
میں حرف بنتی رہی ایسا گیت گانے کو
وہ اک جہاں کہ جسے ہر جہاں عزیز رہا
جنم جنم سے میں تکتی تھی اس زمانے کو
ہمارے ہاتھ سے تہذیب کے گہر بھی گئے
ہمارے پاس ہے اب اور کیا بچانے کو
ہمارے عہد میں لہجوں کا خون ہوتا ہے
کہ زخم دیتے ہیں ہم تو نئے زمانے کو
تمہیں یہ کہتے ہو تنہا ہوں میں اکیلی ہوں
تمہارے واسطے چھوڑا ہے اک زمانے کو
ثبینؔ ذات کے غم سے کبھی نہیں نکلی
وہ پھر بھی جیتی ہے دنیا کے غم اٹھانے کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.