بھول جاؤں تجھے ایسی کوئی تدبیر نہیں
بھول جاؤں تجھے ایسی کوئی تدبیر نہیں
اور پا لوں تجھے ایسی مری تقدیر نہیں
سن تو لیتی ہے مرے غم کا فسانہ مجھ سے
شکر ہے تیری طرح سے تری تصویر نہیں
یا تو اب تیرا تصور بھی خفا ہے مجھ سے
یا مری آہ میں وہ پہلی سی تاثیر نہیں
دل شکن خط پہ بھی دل چاہ رہا ہے اے دوست
جھوٹ ہی کوئی کہے یہ تری تحریر نہیں
اس کے کوچے کو میں چاہوں بھی تو چھوڑے نہ بنے
اور کہنے کو مرے پاؤں میں زنجیر نہیں
کارواں زیست کا لٹ کر سر منزل پہنچے
یہ مرے خواب کی تضحیک ہے تعبیر نہیں
سوز الفت کا نگاہوں سے عیاں ہوتا ہے
یہ فسانہ کبھی منت کش تفسیر نہیں
دل کو ملتی ہے اسی تیر نظر سے راحت
جس سے زہریلا زمانے میں کوئی تیر نہیں
اے ظفرؔ حاصل الفت ہیں یہ میرے آنسو
یہ الگ بات کہ ان تاروں میں تنویر نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.