بھول کر پہلوئے امید میں آیا نہ گیا
بھول کر پہلوئے امید میں آیا نہ گیا
جو پتا ہم کو بتایا تھا وہ پایا نہ گیا
قلم انداز فنا ہوں مری وقعت دیکھو
میں ہوں وہ حرف مکرر جو مٹایا نہ گیا
اس تکلف پہ کہاں لطف ہم آغوشی کا
آپ سے پہلوئے تصویر میں آیا نہ گیا
وہ ادا اور تھی یہ اور ہے پھر اور سہی
بے نیازی سے کوئی رنگ جمایا نہ گیا
اس رکاوٹ میں بھی نیرنگ دل آویزی ہے
روٹھ جانے کی ہے خوبی کہ منایا نہ گیا
دے دیا طاق سے آئینہ اٹھا کر ان کو
حال مجھ سے دل حیراں کا دکھایا نہ گیا
ورق حشر لگایا ہے عدم کے پیچھے
جب مرا حال خموشی سے جتایا نہ گیا
ربط و بے ربطیٔ انفاس سے کچھ بھی نہ ہوا
یہ غبار غم دل تھا کہ اڑایا نہ گیا
بیکس ہائے تمنا سے حیا آنے لگی
تیری تصویر کو سینہ سے لگایا نہ گیا
دیکھنا چرخ جفا کار کی مجبوری کو
اس طرح ہم کو گرایا کہ اٹھایا نہ گیا
اے وفاؔ آرزوئے مرگ نے جی چھوڑ دیا
دست احباب سے اب زہر بھی کھایا نہ گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.