بھولے ہوئے ہیں سب کہ ہے کار جہاں بہت
بھولے ہوئے ہیں سب کہ ہے کار جہاں بہت
لیکن وہ ایک یاد ہے دل پر گراں بہت
کچھ رفتگاں کے غم نے بھی رکھا ہمیں نڈھال
کچھ صدمہ ہائے نو سے رہے نیم جاں بہت
ہم کو نہ زلف یار نہ دیوار سے غرض
ہم کو تو یاد یار کی پرچھائیاں بہت
وہ سرد مہریاں کہ ہمیں راکھ کر گئیں
سنتے ہیں پہلے ہم بھی تھے آتش بجاں بہت
اک موج فتنہ سر کہ رواں ہر نفس میں ہے
ہر دم یقیں سے پہلے اٹھے ہیں گماں بہت
اب کے جنوں میں موج صبا کا بھی ہاتھ ہے
موج صبا کہ اب کے اٹھی سرگراں بہت
اب یہ خبر نہیں وہ سمندر ہے یا سراب
اپنے یہاں ہے تشنگیٔ جسم و جاں بہت
صحرا سے ورنہ اپنا علاقہ نہیں ہے کچھ
آشفتگیٔ سر کی ہوا ہے یہاں بہت
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.