بھولنے کی ہو گئی بے کار ہر تدبیر دیکھ
بھولنے کی ہو گئی بے کار ہر تدبیر دیکھ
رنگ سو دکھلا رہی ہے یہ تری تصویر دیکھ
جانتا ہوں اک سمندر کی تمنا ہے تجھے
آ مری آنکھوں میں اپنے خواب کی تعبیر دیکھ
وہ تجھی میں ہے نہاں جس کی ہے تجھ کو جستجو
بن کے رانجھا آئنے میں اپنے عکس ہیر دیکھ
جب ملی منزل تو میرا ہم سفر ہی کھو گیا
بد نصیبی اس کو کہتے ہیں مری تقدیر دیکھ
رتجگوں سے ربط ہے اور وصل کی خواہش نہیں
اب عنایت کر رہی ہے ہجر کی تاثیر دیکھ
اپنے ماضی سے سبق لے اور مستقبل سنوار
وقت کی پیشانیوں پہ ہے لکھی تحریر دیکھ
روبرو ہے مے مگر تو اس کو چھو سکتا نہیں
پیاس کی حسرت سے پہلے پاؤں کی زنجیر دیکھ
علم کی دولت کے آگے خم ہیں تاج و تخت بھی
سر جھکاتی ہے قلم کے روبرو شمشیر دیکھ
عیب میرے گننے والے خود کو بھی پرکھا کبھی
وار سے پہلے یہ بہتر ہے تو اپنا تیر دیکھ
مجھ کو پالا ہے غزل نے مامتا کی چھاؤں میں
بس ادب کے واسطے ہی ہے مری توقیر دیکھ
ہائے کیسی ہو گئی اہل سیاست کی زباں
بانٹتی انسان کو ہے ان کی ہر تقریر دیکھ
بے حسی کو توڑ دے اب تو پگھل اے سنگ دل
کم سے کم تو سنتؔ کی آنکھوں سے چھلکا نیر دیکھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.