بچھڑ گیا ہوں مرا کارواں نہیں ملتا
بچھڑ گیا ہوں مرا کارواں نہیں ملتا
کہیں کسی کے قدم کا نشاں نہیں ملتا
خلا میں ڈال دیا شوق ارتقا نے مجھے
زمیں بھی چھوٹ گئی آسماں نہیں ملتا
ہزاروں راز چھپائے ہوں اپنے سینے میں
کسے سناؤں کوئی راز داں نہیں ملتا
نہ جانے کون چرا لے گیا خدا جانے
بہت دنوں سے دل ناتواں نہیں ملتا
تمہارے شہر میں رہنے کے واسطے ہم کو
لحد تو ملتی ہے لیکن مکاں نہیں ملتا
کھڑا ہے دھوپ میں اک اجنبی اداس اداس
حویلیاں ہیں بہت سائباں نہیں ملتا
ہمارے دور کے قاتل ہیں کتنے شعبدہ گر
اب آستیں پہ لہو کا نشاں نہیں ملتا
عجیب حال ہے ہم شاعران اردو کا
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
وہاں پہ عمر گزاری ہے ہم نے اے رضواںؔ
کہ سانس لینے کا حق بھی جہاں نہیں ملتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.