بچھڑا وہ گویا زیست میں آیا کبھی نہ تھا
بچھڑا وہ گویا زیست میں آیا کبھی نہ تھا
اس نے مرے مزاج کو سمجھا کبھی نہ تھا
لہجے میں اس کے ترشی بھی ایسی کبھی نہ تھی
دل اس بری طرح مرا ٹوٹا کبھی نہ تھا
گو اضطراب کی تو نہ تھی وجہ ظاہری
دل کو مگر قرار کبھی تھا کبھی نہ تھا
مانا کہ زندگانی میں آئے گئے ہیں لوگ
کوئی بھی اس گلاب نما سا کبھی نہ تھا
آیا بھی میرے شہر ملے بن بھی جا چکا
جیسا ہوا ہوں آج میں تنہا کبھی نہ تھا
گھٹنے ہی اس نے ٹیک دئے ہار مان لی
لوگو وہ ایک شخص جو ہارا کبھی نہ تھا
راہ وفا میں دشت بھی تھے وحشتیں بھی تھیں
گر کچھ نہ تھا تو زلف کا سایہ کبھی نہ تھا
جھیلا ہے درد ہنستے ہوئے کھیلتے ہوئے
کیا شخص تھا جو شکوہ سراپا کبھی نہ تھا
راتیں کٹی ہیں دن بھی گزارے گئے رشیدؔ
دیتا جو دکھ میں ساتھ سہارا کبھی نہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.