بگڑ رہے ہیں ہنسی لب پہ آئی جاتی ہے
بگڑ رہے ہیں ہنسی لب پہ آئی جاتی ہے
ادا بھی ایسی کہ دل میں سمائی جاتی ہے
بڑھا کے رسم محبت گھٹائی جاتی ہے
خطا ہماری ہی یہ بھی بتائی جاتی ہے
نگاہ ناز کی تاثیر اف معاذ اللہ
اتر کے آنکھ سے دل میں سمائی جاتی ہے
یہ بحر عشق میں کیسے کنارے پہنچے گی
ابھی سے کشتئ دل ڈگمگائی جاتی ہے
گزشتہ رات کے صدمے ابھی نہ بھولے تھے
ستم ہے شام مصیبت پھر آئی جاتی ہے
یہ سچ ہے ضد ہے محبت کو رازداری سے
عیاں یہ ہوتی ہے جتنی چھپائی جاتی ہے
چلا ہے کوچۂ قاتل میں کیا سمجھ کر دل
یہ اپنے ہاتھوں سے شامت بلائی جاتی ہے
قریب آیا ہے شاید بہار کا موسم
یہ بات کیا ہے جو وحشت سمائی جاتی ہے
کہاں وہ لطف و محبت کہاں یہ حالت ہے
ہر ایک بات پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے
مجال کیا ہے جو مے کش کوئی بہک جائے
بقدر ظرف ہر اک کو پلائی جاتی ہے
قفس کے سامنے ہوتا ہے ذکر گلشن کا
خبر بہار کی ہم کو سنائی جاتی ہے
کوئی فریب ہے دھوکہ ہے چال ہے یہ بھی
جو ہم سے رسم محبت بڑھائی جاتی ہے
ستم ظریفی تو دیکھو کہ ساتھ وعدے کے
قسم بھی جھوٹی مرے سر کی کھائی جاتی ہے
الٰہی خیر ہو مشق خرام ہوتی ہے
قدم قدم پہ قیامت اٹھائی جاتی ہے
خفا وہ بیٹھے ہیں اغیار اس پہ بھرتے ہیں
یہ آگ اور لگی میں لگائی جاتی ہے
نہ پوچھو بزم میں عشرتؔ سے آرزو کیا ہے
یہ بات کان میں چپکے بتائی جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.