بیمار ہجر بستر غم سے اگر اٹھے
بیمار ہجر بستر غم سے اگر اٹھے
آوازۂ قبول دعائے سحر اٹھے
لاکھوں ہیں داد خواہ ہزاروں ہیں مدعی
کس طرح روز حشر کسی کی نظر اٹھے
اے یاس ایک ایک کا لازم ہے فیصلہ
دل کو بٹھا کے ہجر میں درد جگر اٹھے
ہے آسماں کی وجہ سے گردن جھکی ہوئی
یہ چھت جو ہو بلند تو نالوں کا سر اٹھے
مجبور ہو رہا ہوں میں بار خیال سے
امکان میں نہیں ہے کہ زانو سے سر اٹھے
ممکن نہیں کہ اشک نہ آنکھوں سے ہوں رواں
بالیں سے کوئی مجھ کو اگر دیکھ کر اٹھے
مد نظر ہوا ہے انہیں امتحان ضبط
طوفان اشک آج نہ اے چشم تر اٹھے
ہے ابتدا سے یوں ہی نشیب و فراز دہر
کیوں دل نہ بیٹھ جائے جو درد جگر اٹھے
مسعودؔ چھیڑ وصل کی کرنا ضرور تھی
خاموش بزم یار سے کیا سوچ کر اٹھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.