بکھر جاتا ہے جب سپنا تو منظر میں نہیں رہتا
بکھر جاتا ہے جب سپنا تو منظر میں نہیں رہتا
ہوا کا عکس آئینوں کے جوہر میں نہیں رہتا
اسے تعبیر کرنا ہے طلوع اشک سے لیکن
وہ اک بہتا اجالا ہے سمندر میں نہیں رہتا
جسے میں ڈھونڈھتا رہتا ہوں تصویروں کے میلے میں
وہ رنگوں کا تلاطم اپنے پیکر میں نہیں رہتا
کوئی موج سراب اس میں سرایت ہے کہ اب اکثر
فسون لمس کا عالم گل تر میں نہیں رہتا
بہت دن ہو گئے اس سے نہیں ہے رابطہ میرا
بہت دن ہو گئے دل اپنے محور میں نہیں رہتا
بجھا کر پیاس جھیلوں سے پرندے اڑتے جاتے ہیں
کوئی بھی عمر بھر آنکھوں کے ساگر میں نہیں رہتا
کفیلؔ آخر طلب لے جائے گی اس کو وہاں سے بھی
مسافر دیر تک ٹھہرا کھلے در میں نہیں رہتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.