بکھرا پڑا تھا جا بجا کچرا وجود کا
بکھرا پڑا تھا جا بجا کچرا وجود کا
ہم چھوڑ آئے اس گلی ملبہ وجود کا
ہر روز مانگ مانگ کے لیتا ہوں سانس بھی
بڑھتا ہی جا رہا ہے یہ قرضہ وجود کا
کتنی شکست و ریخت ہوئی کچھ نہیں پتا
مجھ کو ملا نہیں ابھی قبضہ وجود کا
تازہ ہوا نہ روشنی نا بام و در نہ چھت
مجھ کو سمجھ نہ آ سکا نقشہ وجود کا
اک عمر ہو گئی اسے خالی پڑے ہوئے
بگڑا ہوا ہے اس لیے حلیہ وجود کا
کچھ کڑوے گھونٹ چاہئیں ہر رات اس کو اب
یوں اور بڑھ گیا ہے یہ خرچہ وجود کا
میرے سبب یہ خال و خد اس کے بگڑ گئے
سنتا ہوں صبح شام یہ طعنہ وجود کا
تم ہی بتاؤ کیسے چلا اس کا سلسلہ
مجھ کو تو مل سکا نہیں شجرہ وجود کا
اک شعر فہم شخص کی خواہش پہ دوستو
لو ہم نے لکھ دیا ہے یہ نوحہ وجود کا
جوں جوں میں سوچتا ہوں تخیل میں اس کا لمس
کچھ اور بڑھتا جاتا ہے نشہ وجود کا
میری تو ایک بات بھی سنتا نہیں یہ دل
ہاتھوں میں اب نہیں رہا بچہ وجود کا
دانشؔ میں تنگ آ گیا اس بد مزاج سے
سنبھلے نہیں سنبھلتا ہے غصہ وجود کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.