بکھری تھی ہر سمت جوانی رات گھنیری ہونے تک
بکھری تھی ہر سمت جوانی رات گھنیری ہونے تک
لیکن میں نے دل کی نہ مانی رات گھنیری ہونے تک
درد کا دریا بڑھتے بڑھتے سینے تک آ پہنچا ہے
اور چڑھے گا تھوڑا پانی رات گھنیری ہونے تک
آگ پہ چلنا قسمت میں ہے برف پہ رکنا مجبوری
کون سنے گا اپنی کہانی رات گھنیری ہونے تک
اس کے بنا یہ گلشن بھی اب صحرا جیسا لگتا ہے
لگتا ہے سب کچھ بے معنی رات گھنیری ہونے تک
خون جگر سے ہم کو چراغاں کرنا ہے سو کرتے ہیں
اپنی ہے یہ ریت پرانی رات گھنیری ہونے تک
جن ہونٹوں نے پیاسے رہ کر ہم کو اپنے جام دیے
یاد کرو ان کی قربانی رات گھنیری ہونے تک
دل میں اپنے زخم تمنا آنکھوں میں کچھ خواب لیے
برسوں ہم نے خاک ہے چھانی رات گھنیری ہونے تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.