بنا مخرج کے ہو دریا رواں ایسے نہیں ہوتا
بنا مخرج کے ہو دریا رواں ایسے نہیں ہوتا
جلے آتش نہ ہو کوئی دھواں ایسے نہیں ہوتا
محبت دل کو ہو جائے گراں ایسے نہیں ہوتا
مکیں پر تنگ ہو جائے مکاں ایسے نہیں ہوتا
جنہیں کل تک میں سکھلاتا تھا ہاں ایسے نہیں ہوتا
وہی لوگ آج کہتے ہیں میاں ایسے نہیں ہوتا
سفر میں راہبر ہیں تو کئی رہزن بھی آئیں گے
ملیں دنیا میں سب ہی مہرباں ایسے نہیں ہوتا
جنہیں چاہیں وہ بدلے میں اسی طرح ہمیں چاہیں
بجا امید ہے لیکن میاں ایسے نہیں ہوتا
نہ کھولو چشم دنیا پر نگاہ دوست کے اسرار
جو باتیں راز ہوں ان کا بیاں ایسے نہیں ہوتا
یہی ہوتا تو پھر سارا جہاں ایسے نہیں ہوتا
یہاں ایسے نہیں ہوتا وہاں ایسے نہیں ہوتا
عمل رد عمل کے واسطے ہے لازمی صاحب
کوئی بھی خوش گماں یا بد گماں ایسے نہیں ہوتا
کسی سے مہر چاہو جب کہ اس سے بے رخی برتو
تمہیں معلوم ہے ناں میری جاں ایسے نہیں ہوتا
سمندر اپنی تہہ میں جیسا رکھتا ہے سکوں اے دوست
نظر باہر بھی آئے وہ سماں ایسے نہیں ہوتا
وہ ہرجائی ہے پر دل سے نکالا بھی نہیں جاتا
چمن خود سے اجاڑے باغباں ایسے نہیں ہوتا
کسی کی چاہ میں کیوں اتنے آگے بڑھ گئے ہو شمسؔ
خود اپنے آپ کو ہو اب گراں ایسے نہیں ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.