بستر کی شکن آس کی شہنائی ڈسے ہے
بستر کی شکن آس کی شہنائی ڈسے ہے
اک درد ابھر آئے ہے تنہائی ڈسے ہے
جب دیکھوں میں آئینے میں مرجھائی سی صورت
درپن سے ابھر کر تری انگڑائی ڈسے ہے
مسکان وہ متوالی ادا سرخی لبوں کی
نینوں کی تری جھیل سی گہرائی ڈسے ہے
گلشن ہے سراپا اے مری جان غزل تو
ناگن سی مگر زلف جو لہرائی ڈسے ہے
میں تجھ سے اکیلے میں بھی مل سکتا ہوں لیکن
الزام ڈرائے مجھے رسوائی ڈسے ہے
لے آتی ہیں خوشبو سی چرا کر تری یادیں
تنہائی کے عالم میں یہ پروائی ڈسے ہے
دالان تو ساگون کے پتوں سے اٹے ہیں
اور قبر سی سنسان یہ انگنائی ڈسے ہے
پاگل ہے دیوانہ ہے وہ مستانہ ستم گر
پھولوں کا دہن بھنورا سا ہرجائی ڈسے ہے
اس درد محبت میں نہیں تجھ سے شکایت
مجھ کو تو مرے پیار کی گہرائی ڈسے ہے
بنجر ہے زمیں دیش کی دل کیسے سکوں پائے
بازار کی بڑھتی ہوئی مہنگائی ڈسے ہے
ہے نظم تو انورؔ کی ربائی بھی غزل بھی
اے جان غزل تیری شناسائی ڈسے ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.