بجھ گئے شعلے دھواں آنکھوں کو پانی دے گیا
بجھ گئے شعلے دھواں آنکھوں کو پانی دے گیا
یہ اچانک موڑ دریا کو روانی دے گیا
اب تو اس کی دھوپ میں جلتا ہے میرا تن بدن
کیا ہوا وہ مہر جو صبحیں سہانی دے گیا
جی میں زندہ ہو گئیں کیا خواہشیں بسری ہوئی
پھر کوئی یوسف زلیخا کو جوانی دے گیا
پھر ہوا احساس یوں مجھ کو کہ میں اک نقش ہوں
کون تصویروں کو حکم بے زبانی دے گیا
پیڑ ننگے ہو گئے رستوں پہ پتے ہیں ابھی
ہاں مگر طوفان کچھ یادیں نشانی دے گیا
میں سبک سر تھا ہواؤں کی طرح پر اب نہیں
یک بیک رکنا طبیعت کو گرانی دے گیا
بولتا چہرہ جھکی آنکھیں چھپا مت ہاتھ سے
تیرا چپ رہنا مجھے کیا کیا معانی دے گیا
جیسے میرے پیر موج واپسیں پر جم گئے
ہر نیا لمحہ کوئی صورت پرانی دے گیا
اے لب گویا نہ چھن جائے کہیں یہ ذائقہ
چاٹیے وہ زخم جو شعلہ بیانی دے گیا
میں نے شاہدؔ آئنے میں اپنی صورت دیکھ لی
یہ ذرا سا واقعہ پوری کہانی دے گیا
- کتاب : Subh-e-safar (Pg. 25)
- Author : Saleem Shahid
- مطبع : Ham asr, Lahore (1971)
- اشاعت : 1971
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.