بجھ جائے دل بشر کا تو اس کو شفا سے کیا
بجھ جائے دل بشر کا تو اس کو شفا سے کیا
کس درجہ ہوگی کارگر اس کو دوا سے کیا
جھلسا کے رکھ دیا جسے باد سموم نے
غنچوں سے کیا غرض اسے باد صبا سے کیا
دو وقت جس غریب کو روٹی نہ ہو نصیب
مذہب کا کیا کرے اسے ذکر خدا سے کیا
رہنے کو جھونپڑا بھی نہ جس شخص کو ملے
اس کو سزا کی فکر کیا اس کو جزا سے کیا
جس کے بدن پہ گوشت دکھائی نہ دے کہیں
اس آدمی کو روح کی نشو و نما سے کیا
تنگ آ چکا ہو کشمکش زندگی سے جو
کیا مہ وشوں سے کام اسے دل ربا سے کیا
فکر معاش ہی سے نہ فرصت ملے جسے
شعر و ادب سے کیا اسے مہر و وفا سے کیا
سنتا ہو جو ضمیر کی آواز دوستو
اس کو کسی خضر سے کسی رہنما سے کیا
رہتا ہو اپنی ذات میں جو مست ہر گھڑی
اس کو سرائے دہر کی آب و ہوا سے کیا
کہنا ہو جو بھی آپ اسے برملا کہیں
لفظوں کے ہیر پھیر سے طرز ادا سے کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.